مدھیہ پردیش میں ووٹرس کی تعداد 5 کروڑ 60 لاکھ ہے، اس میں مرد ووٹرس کی تعداد 2 کروڑ 88 لاکھ 25 ہزار 607 ہے اور خاتون ووٹرس کی تعداد 2 کروڑ 72 لاکھ 33 ہزار 945 ہے، جبکہ 1373 ووٹرس تھرڈ جنڈر کے ہیں۔
مدھیہ پردیش میں انتخاب کی تیاری، تصویر سوشل میڈیا
مدھیہ پردیش میں 17 نومبر یعنی کل سبھی 230 اسمبلی سیٹوں کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اس کے پیش نظر سبھی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ مدھیہ پردیش کی جن 230 نشستوں پر ووٹنگ ہونی ہے ان میں سے 34 سیٹیں چنبل، 26 سیٹیں بندیل کھنڈ، 30 سیٹیں بگھیل کھنڈ، 55 سیٹیں مالوہ، 18 سیٹیں نماڑ، 47 سیٹیں مہاکوشل اور 20 سیٹیں بھوپال علاقہ سے ہیں۔ ریاست میں ووٹ ڈالنے کا عمل صبح 7 بجے شروع ہوگا جو شام 6 بجے تک جاری رہے گا اور نتائج 3 دسمبر کو برآمد ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کے ذریعہ سامنے آئے ڈاٹا کے مطابق مدھیہ پردیش میں 18 سے 19 سال کی عمر کے 22 لاکھ نوجوان پہلی بار ووٹ کریں گے۔ ریاست میں 20 سے 39 سال کی عمر کے ووٹرس کی تعداد 2 کروڑ 86 لاکھ ہے، جبکہ مجموعی ووٹرس کی تعداد 5 کروڑ 60 لاکھ ہے۔ ان میں مرد ووٹرس کی تعداد 2 کروڑ 88 لاکھ 25 ہزار 607، خاتون ووٹرس کی تعداد 2 کروڑ 72 لاکھ 33 ہزار 945 اور تھرڈ جنڈر (تیسری صنف) ووٹرس کی تعداد 1373 ہے۔
ووٹنگ کے لیے 75 ہزار سے زیادہ پوسٹل بیلٹ یعنی ملازمین کا انتظام کیا گیا ہے اور اسمبلی کی 230 نشستوں کے لیے 64 ہزار 523 پولنگ مراکز بنائے گئے ہیں۔ ریاست میں 17 ہزار حساس پولنگ بوتھ بھی ہیں۔ انتخابی کمیشن کے مطابق نصف پولنگ بوتھ کی ویب کاسٹنگ کے ذریعہ نگرانی کی جائے گی۔
انتخابی میدان میں کتنے امیدوار؟
230 اسمبلی نشستوں کے لیے 2280 مرد، 252 خواتین اور 1 تھرڈ جنڈر سمیت 2533 امیدواروں کی قسمت داؤ پر ہے۔ اس میں بی جے پی-کانگریس نے سبھی 230 سیٹوں پر امیدوار اتارے ہیں۔ بہوجن سماج پارٹی نے 181 امیدوار، عآپ نے 66 امیدوار اور سماجوادی پارٹی نے 71 امیدوار میدان میں اتارے ہیں، جبکہ 1166 امیدوار آزادانہ انتخابی میدان میں ہیں۔ بی جے پی نے جہاں 30 اسمبلی نشستوں پر خاتون امیدواروں کو انتخابی میدان میں اترنے کا موقع دیا ہے، وہیں کانگریس نے 203 سیٹوں پر خواتین امیدوار کو اتار کر سبھی کو حیران کر دیا ہے۔
سیکورٹی کے سخت انتظامات
اس بار مدھیہ پردیش میں 50 فیصد سے زیادہ پولنگ مراکز پر ویب کاسٹنگ ہوگی۔ گزشتہ انتخاب میں صرف 10 فیصد پولنگ مراکز پر ہی ویب کاسٹنگ ہوئی تھی۔ چیف الیکٹورل افسر انوپم راجن کا کہنا ہے کہ اس بار پولنگ کے دوران کی سبھی حرکت کیمرے میں قید ہوگی، اس لیے ووٹرس بلاخوف ووٹ کریں۔ پولنگ شروع ہونے کے 90 منٹ پہلے ’ماک پول‘ ہوگا، پھر پولنگ کا عمل شروع کیا جائے گا۔
کن سیٹوں پر رہیں گی نظریں؟
بدھنی، چھندواڑا اور راگھو گڑھ سمیت ریاست کی کئی سیٹوں پر سخت مقابلہ ہے جس میں شیوراج سنگھ چوہان اور کمل ناتھ سمیت کئی سرکردہ لیڈران کا وقار داؤ پر ہے۔ بی جے پی نے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کو سیہور ضلع کی بدھنی سیٹ سے انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ چوہان نے بدھنی سے 1990 میں پہلی بار اسمبلی انتخاب جیتا تھا۔ یہاں سے لگاتار چار بار وہ انتخاب جیت چکے ہیں۔ وہ سب سے زیادہ ریاست میں 4 بار وزیر اعلیٰ بھی بنے ہیں۔ دَتیا سیٹ پر بھی سب کی نظریں مرکوز رہیں گی جہاں سے بی جے پی نے مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ اور وزیر ریل نروتم مشرا پر داؤ لگایا ہے۔ مشرا 1990 میں پہلی بار رکن اسمبلی بنے تھے۔ وہ 2003 سے بی جے پی حکومت میں وزیر رہے ہیں۔ ساتھ ہی بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری کیلاش وجئے ورگیہ کو اندور ضلع کی اندور 1 سیٹ سے ٹکٹ دیا گیا ہے۔ وجئے ورگیہ پانچ بار رکن اسمبلی اور اندور کے میئر رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بی جے پی نے مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر کو مرینا ضلع کی دیمنی سے امیدوار بنایا ہے۔ تومر مرینا سے ہی لوک سبھا رکن ہیں۔ علاوہ ازیں پانچ بار کے لوک سبھا رکن پرہلاد سنگھ پٹیل مہاکوشل ریجن کے نرسنگھ پور سیٹ سے پہلی بار اسمبلی انتخاب لڑ رہے ہیں۔
مدھیہ پردیش کانگریس کے صدر کمل ناتھ کو کانگریس نے مہاکوشل ریجن کے چھندواڑہ سے انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ 9 مرتبہ چھندواڑہ لوک سبھا سیٹ سے وہ رکن پارلیمنٹ رہے ہیں۔ اس سیٹ سے کمل ناتھ کے بیٹے نکل ناتھ رکن پارلیمنٹ ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ دگ وجئے سنگھ کے بھائی لکشمن سنگھ کو پارٹی نے گنا ضلع کی چاچوڑا سیٹ سے ٹکٹ دیا ہے۔ لکشمن سنگھ تین بار رکن اسمبلی اور پانچ بار رکن پارلیمنٹ رہے ہیں۔ گنا ضلع کی راگھو گڑھ سیٹ سے کانگریس نے دگوجئے سنگھ کے بیٹے جئے وردھن سنگھ پر داؤ لگایا ہے۔ جئے وردھن سنگھ دو بار رکن اسمبلی رہے ہیں اور وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ ارجن سنگھ کے بیٹے اجئے سنگھ کو سیدھی ضلع کی چرہٹ سیٹ سے ٹکٹ دیا گیا ہے۔ اجئے سنگھ چھ بار رکن اسمبلی رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ مدھیہ پردیش کانگریس کے کارگزار صدر جیتو پٹواری کو اندور ضلع کی راؤ سیٹ سے امیدوار بنایا گیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;